⦾ جنوجی پنجاب کے ضلع راجنپور میں محکمہ موسمیات کی آبزرویٹری کب جا کر لگے گی؟
نومبر 2019 کے اس درج ذیل دستاویز میں محکمہ موسمیات خود کہ رہی ہے کہ راجنپور اور ملتان کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں موسمی آبزرویٹری لگنے کا عمل جاری ہے۔ آج اس بات کو ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ گو کہ ملتان کے کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے موسمی ڈیٹا کی موصولی کا عمل جولائی 2020 سے شروع ہو گیا تھا، کیا راجنپور میں موسمی سٹیشن لگنے کا عمل اکّیسویں صدی کے اختتام تک چلے گا؟ آج کے تیز رفتار دور میں ایک مکمّل سرکاری ادارے کو موسمی سٹیشن لگانے کیلئے اور کتنا وقت لگنا چاہئیے؟
⦾ سندھ اور بلوچستان میں موسمی آبزرویٹریز کی شدید قلّت (درج ذیل تصویر دیکھیں)۔
حالانکہ بلوچستان کے دور دراز اضلاع میں محکمہ موسمیات کی جانب سے خودکار موسمی سٹیشن لگانے کا عمل قابلِ تعریف ہے، تاہم یہ کوشش ناکافی ہے۔ بلوچستان کے بڑے بڑے اضلاع جیسے کہ واشک، اواران، بولان وغیرہ میں کوئی موسمی سٹیشن نصب نہیں۔ بلکے گرینڈ سولر منیمم کے زیرِ اثر تیزی سے آتی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گزشتہ 3 سالوں میں بلوچستان کے کافی اضلاع باالخصوص بولان، ہرنائی، واشک اور اواران میں مون سون، موسمِ بہار اور موسمِ سرما میں ہونے والی غیر معمولی اور تباہ کن بارشوں سے بڑے پیمانے پر سیلابی صورتحال رونما ہو چکی ہے۔ اسکے باوجود پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ موسم کے اعتبار سے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ بلوچستان میں ہوا بہت چلتی ہے، جسکی وجہ سے وہاں ہوا سے بجلی بنانے کے عمل پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرف کسی کی کوئی توجّہ نہیں، کیونکہ اس حوالے سے بلوچستان کے کئی اضلاع کی کوئی موسمی ڈیٹا میسّر نہیں، جو کہ ہوا سے بجلی بنانے کے عمل کی ابتدائی ضرورت ہے۔
⦾ سندھ کی صورتحال میں بھی کوئی خاص فرق نہیں۔ گزشتہ 2 سالوں سے مون سون کی انتہائی شدید بارشوں سے کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں سے بڑے پیمانے پر سیلابی ریلے مغربی سندھ کے دادو اور جامشورو کے اضلاع کو متاثّر کر رہے ہیں۔ یہ آنے والے سالوں میں ہمارا نیا معمول بنتا جاۓ گا۔ اسکے باوجود 3087 مربع کلومیٹر پر پھیلے کیرتھر نیشنل پارک میں ایک بھی آبزرویٹری یا خودکار موسمی سٹیشن نصب نہیں۔ حتّیٰ کہ ضلع دادو کے مشہور تفریحی مقام اور سندھ کے مری، گورکھ ہل سٹیشن پر بھی کوئی موسمی سٹیشن نصب نہیں۔
کراچی اور حیدرآباد کے بیچ میں واقع جامشورو کا علاقہ نوری آباد ہمیشہ سے ہی دلچسپ موسمی حالات کیلئے جانا جاتا ہے، اور گرینڈ سولر منیمم کے سبب مغربی ہواؤں کے سلسلے اب اور بھی زیادہ جنوب کے علاقوں کو متاثّر کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے موسمِ بہار اور موسمِ گرما کے ابتدائی دنوں میں نوری آباد کے علاقے میں کئی بگولے (tornadoes) بھی دیکھے گئے ہیں۔ مگر افسوس کہ محکمہ موسمیات کی غفلت اور بے حسی کے سبب سندھ کے بڑے حصّی کے موسم کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، جو کہ ان علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی خراب منصوبہ بندی کی بڑی وجہ ہے۔
صوبہ سندھ کے ایک بڑے ضلعے ٹھٹّھہ میں بلآخر سن 2004 میں مکلی کے مقام پر موسمی آبزرویٹری نصب کر دی گئی۔ تاہم ضلع ٹھٹّھہ کی پوری ساحلی پٹّی بشمول کیٹی بندر آج تک موسمی سٹیشن سے محروم، ہے جہاں ہر دوسرے سال سمندری طوفان سے نقصانات کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ مکلی میں نصب موسمی سٹیشن کسی بھی طور پر ٹھٹّھہ کی ساحلی پٹّی کے موسم کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔
کراچی کا گڈاپ ٹاؤن بھی ایک دکھ بھری داستان ہے (درج ذیل تصویر دیکھیں)۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے قریب ترین واقع کاشتکاری کا واحد بڑا علاقہ ہے، جو آج بھی موسمی آبزرویٹری یا خودکار موسمی سٹیشن سے محروم ہے۔ بلکے پاکستان کے زیادہ تر علاقوں کی طرح کراچی میں بھی آزادی سے قبل برطانوی دورِ حکومت میں آج کے دور سے زیادہ موسمی آبزرویٹریز تھیں، جن میں سے ایک منوڑا (1851 تا 1987)، دوسری کراچی ائیرپورٹ (1928 سے تاحال) اور تیسری گڈاپ میں ہی نصب تھی۔ جبکہ آج محض کراچی ائیرپورٹ سلامت رہ گئی ہے۔ اس بات کا ذکر یہاں اہم ہوگا کہ ساحل پر ہونے کی وجہ سے کراچی کے اندرونی علاقوں کے موسم اور ساحل سے قریبی علاقوں کے موسم میں روزانہ کی بنیاد پر زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
⦾ ہمیں پاکستانی کہلانے پر فخر ہے، تاہم ہمیں یہ بات منظرِ عام پر لاتے ہوۓ شرم محسوس ہو رہی ہے کہ پڑوسی دشمن ملک ہندوستان کے ہر ضلعے میں کم از کم ایک موسمی سٹیشن نصب ہے۔ حتّیٰ کہ سن 2015 میں بھی ہندوستان میں کُل 1500 خودکار موسمی سٹیشن نصب تھے، جبکہ اس وقت محکمہ موسمیات پاکستان کے پاس ایک بھی کارآمد خودکار موسمی سٹیشن نہیں لگا ہوا تھا۔
⦾ پاکستانی عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو کلائمیٹ چینج کی فضول کانفرنسوں اور آفس پارٹیوں میں ضائع کرنے کی بجاۓ محکمہ موسمیات کو چاہئیے کہ پاکستان بھر میں موسمی آبزرویٹریز اور خودکار موسمی سٹیشن کے نیٹورک کو تیزی سے بڑھائیں اور مزید بہتر بنائیں۔ اس وقت تو یہ بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر درجہ حرارت میں ہیرا پھیری کرنے کیلئے جو محکمہ موسمیات کو بین لاقوامی تنظیموں سے اضافی فنڈنگ مل رہی ہے، انکو کن کاموں میں صرف کیا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت محکمہ موسمیات کی مجموعی کارکردگی قابلِ اعتراض اور انتہائی ناکارہ ہے۔